99newspk

23 دسمبر، 2024
بریکنگ نیوز
  • جنوبی افریقہ میں پاکستانی شاہینوں کی تاریخی فتح، پروٹیز کو کلین سویپ کردیا
  • چیمپئنز ٹرافی: بھارت کے تمام میچز دبئی میں کھیلے جائیں گے
  • کرم میں کشیدگی کے باعث پشاور آمد و رفت کے لیے ہیلی کاپٹر سروس کا آغاز
  • حکومت کی غیرسنجیدگی پر سول نافرمانی تحریک کا اعلان، شیخ وقاص اکرم
  • کراچی بھینس کالونی موڑ پر وین میں آگ، 10 افراد زخمی
23 دسمبر، 2024

گوگل کی اجارہ داری پر امریکی حکومت کی تشویش، کروم براؤزر فروخت کرنے کا مطالبہ

امریکی حکومت نے گوگل کی بڑھتی ہوئی اجارہ داری کو روکنے کے لیے عدالت سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ کمپنی اپنا مقبول کروم براؤزر فروخت کرے۔ امریکی محکمہ انصاف نے دعویٰ کیا ہے کہ گوگل نے سرچ مارکیٹ پر مکمل قبضہ کر رکھا ہے، جو مسابقتی ماحول کے لیے خطرناک ہے۔

عدالت میں جمع کرائی گئی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ گوگل اسمارٹ فون بنانے والی کمپنیوں، بشمول ایپل، سے ایسے معاہدے کر رہا ہے جن کے ذریعے گوگل سرچ انجن کو ان ڈیوائسز کا ڈیفالٹ آپشن بنایا جا رہا ہے، جس سے ممکنہ حریفوں کے لیے مواقع محدود ہو رہے ہیں۔

کروم براؤزر، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا براؤزر ہے، سرچ انجن تک رسائی کا بنیادی ذریعہ بن چکا ہے۔ اسٹیٹ انکاؤنٹر کی رپورٹ کے مطابق، گوگل عالمی آن لائن سرچ مارکیٹ کے 90 فیصد سے زیادہ حصے پر قابض ہے۔

یہ مسئلہ نیا نہیں۔ دو دہائیاں قبل، امریکی حکومت نے مائیکروسافٹ کی اجارہ داری کو توڑنے کی کوشش کی تھی، لیکن خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے تھے۔ گوگل کے خلاف موجودہ مقدمہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں شروع ہوا اور جو بائیڈن انتظامیہ میں بھی جاری ہے۔

فیڈرل کورٹ کے جج امیت مہتا نے حالیہ فیصلے میں کہا کہ گوگل نے غیر قانونی طور پر سرچ مارکیٹ پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے۔ کمپنی نے 2021 میں اسمارٹ فونز اور براؤزنگ پروگرامز میں گوگل کو ڈیفالٹ سرچ انجن رکھنے کے لیے 26 ارب 30 کروڑ ڈالر خرچ کیے تھے۔

یورپی یونین میں بھی گوگل کو مسابقتی قوانین کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر قانونی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ امریکی حکومت چاہتی ہے کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کو قواعد و ضوابط کے تابع کیا جائے، لیکن عملی طور پر یہ ایک مشکل ہدف ثابت ہو رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
[post_navigation]