وفاقی حکومت نے خیبرپختونخوا میں گورنر راج نافذ کرنے کے امکان پر غور شروع کر دیا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قانون، بیرسٹر عقیل ملک نے تصدیق کی کہ حکومت یہ اقدام مناسب سمجھتی ہے اور اس حوالے سے مختلف آپشنز پر مشاورت جاری ہے۔
بیرسٹر عقیل ملک کا کہنا تھا کہ گورنر راج کے نفاذ کے لیے پہلی کوشش یہ ہوگی کہ صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جائے۔ تاہم، اگر قرارداد پیش نہ کی جا سکے تو وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت گورنر راج نافذ کر سکتے ہیں، جس کے بعد معاملے کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 10 دن کے اندر بلایا جا سکتا ہے تاکہ گورنر راج کی منظوری لی جا سکے۔
گورنر خیبرپختونخوا کا عندیہ
5 اکتوبر کو گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے بھی گورنر راج کا عندیہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر معاملات بے قابو ہوئے تو گورنر راج کے نفاذ میں کوئی قباحت نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ اقدام ماضی میں بھی کیا گیا ہے اور آئین کے تحت موجود ہے۔
سیاسی پس منظر
خیبرپختونخوا میں سیاسی کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب 24 نومبر کو سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی اور دیگر مطالبات کے حق میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا مرکزی قافلہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی کی قیادت میں اسلام آباد کی جانب روانہ ہوا۔
تاہم، 26 نومبر کو پولیس اور رینجرز نے اسلام آباد کے مرکزی علاقے ڈی چوک کو مظاہرین سے خالی کروا لیا اور متعدد کارکنوں کو گرفتار کیا۔
وزیراعظم کا ردعمل
وزیراعظم شہباز شریف نے مظاہروں کو ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پر لشکر کشی کا مقصد ملکی استحکام کو نقصان پہنچانا تھا۔ انہوں نے شرپسند عناصر کے خلاف فوری قانونی کارروائی اور استغاثہ کے نظام کو مضبوط بنانے کی ہدایت دی تھی۔
وزیراعظم نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی ہے جو مستقبل میں اس طرح کے مظاہروں کی روک تھام اور حالیہ واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے گی۔