اسلام آباد: سپریم کورٹ میں زیر سماعت بینچز کے اختیارات کیس میں جسٹس محمد علی مظہر کا تفصیلی نوٹ جاری کر دیا گیا، جس میں انہوں نے آئینی معاملات پر اپنے مؤقف کی وضاحت کی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ کسی بھی قانون کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینے کا اختیار صرف آئینی بینچ کو حاصل ہے، جبکہ کوئی ریگولر بینچ آئین کی تشریح نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دو رکنی بینچ کے حکم نامے واپس لینا آئینی بینچ کا درست فیصلہ تھا۔
نوٹ میں مزید کہا گیا کہ 26ویں آئینی ترمیم بدستور آئین کا حصہ ہے اور اس میں تمام نکات واضح طور پر درج ہیں، لہٰذا اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ ترمیم چیلنج ہو چکی ہے اور فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے جا چکے ہیں، جبکہ کیس فل کورٹ میں بھیجنے کی درخواست پر میرٹ پر فیصلہ ہوگا۔ تاہم، جب تک سپریم کورٹ یا پارلیمنٹ کوئی فیصلہ نہیں دیتی، اس ترمیم کے تحت تمام امور بدستور جاری رہیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے یہ بھی لکھا کہ آئینی تشریح کا اختیار کم از کم پانچ رکنی آئینی بینچ کو حاصل ہے اور کسی بھی ریگولر بینچ کو وہ کام نہیں کرنا چاہیے جو آئین کے مطابق اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ دو رکنی بینچ کے ٹیکس کیس میں دیے گئے بنیادی حکم نامے واپس ہو چکے ہیں، جس کے بعد اس سے متعلق تمام کارروائی غیر مؤثر ہو چکی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل آئینی بینچ نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی کے حکم نامے کالعدم قرار دیے تھے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے بھی اتفاق کرتے ہوئے یہ تفصیلی نوٹ جاری کیا۔