مصر کی سرزمین ایک بار پھر آثارِ قدیمہ کی ایک حیران کن دریافت کا گواہ بنی ہے۔ برطانوی ماہرِ آثار قدیمہ، ڈاکٹر پیئرز لیتھرلینڈ اور ان کی ٹیم نے وادیِ ملوک میں تقریباً ایک صدی بعد کسی فرعون کا مقبرہ دریافت کیا ہے۔ یہ مقبرہ مصر کے قدیم بادشاہ تحتمس دوم (1493-1479 قبل مسیح) سے منسوب ہے اور آثارِ قدیمہ کی دنیا میں ایک سنگ میل تصور کیا جا رہا ہے۔
تحقیقات کے دوران، ماہرین نے ایک ایسا زینہ دریافت کیا جو برسوں سے ملبے اور سیلابی مٹی میں دب چکا تھا۔ آغاز میں شبہ ہوا کہ یہ کسی شاہی ملکہ کی آرام گاہ ہو سکتی ہے، لیکن جب تدفین کے کمرے میں داخل ہوئے تو حیران کن انکشافات سامنے آئے۔ کمرے کی چھت نیلے رنگ کی تھی جس پر زرد ستارے منقش تھے، جبکہ دیواروں پر امدوات کے نقوش کندہ تھے – ایک ایسا مذہبی متن جو صرف شاہی مقبروں میں پایا جاتا ہے۔
مزید کھدائی پر انکشاف ہوا کہ یہ مقبرہ خالی تھا۔ عمومی طور پر، فراعنہ کے مقبروں میں حنوط شدہ لاشیں اور خزانے موجود ہوتے ہیں، لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ملا۔ تحقیق سے پتا چلا کہ مقبرہ تعمیر کے کچھ ہی عرصے بعد زیرِ آب آ گیا تھا، کیونکہ یہ ایک آبشار کے نیچے بنایا گیا تھا۔ پانی کے سبب قیمتی اشیا خراب ہونے لگیں، جس کے بعد شاہی حکام نے فرعون کے باقیات کو ایک خفیہ راستے سے کسی اور مقام پر منتقل کر دیا۔
ماہرین کے لیے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ یہ مقبرہ کس فرعون کا ہے۔ آخر کار، ملبے سے الباستر کے کچھ ٹکڑے برآمد ہوئے جن پر تحتمس دوم کا نام درج تھا، جس سے اس دریافت کی تاریخی اہمیت مزید بڑھ گئی۔
یہ دریافت آثارِ قدیمہ کے شعبے میں ایک نیا باب کھول سکتی ہے اور مصری تاریخ کے ان گمشدہ رازوں کو بے نقاب کر سکتی ہے جو ابھی تک پوشیدہ ہیں۔