امریکی ریاست کیلیفورنیا کی ایک عدالت نے میٹا کے ذریعے دائر کیے گئے جاسوسی مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے اسرائیلی کمپنی این ایس او گروپ کو واٹس ایپ کے ذریعے غیر قانونی ہیکنگ کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
کیس کی تفصیلات
فیصلے میں کہا گیا کہ این ایس او گروپ نے 2019 میں واٹس ایپ کے صارفین کے خلاف خفیہ سافٹ ویئر ‘پیگاسس’ کا استعمال کیا، جس سے دنیا بھر میں 1,400 سے زائد افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ ان متاثرین میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور سرکاری عہدیداران شامل تھے۔
جج کا فیصلہ
امریکی ڈسٹرکٹ جج فلس ہیملٹن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ این ایس او گروپ نے وفاقی اور کیلیفورنیا کے قوانین کی خلاف ورزی کی اور اب مقدمہ صرف ہرجانے کے معاملے پر آگے بڑھے گا۔
پیگاسس اسپائی وئیر اور الزامات
واٹس ایپ نے 2019 میں یہ مقدمہ دائر کیا تھا، جب تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ این ایس او گروپ کے اسپائی ویئر کو سربراہانِ مملکت، کارکنوں اور صحافیوں کے فونز ہیک کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
واٹس ایپ کا الزام ہے کہ این ایس او نے ان کے سرورز تک غیر مجاز رسائی حاصل کی اور صارفین کے موبائل آلات پر اسپائی ویئر انسٹال کیا۔
این ایس او گروپ کا موقف
این ایس او گروپ نے کہا کہ ان کی مصنوعات صرف حکومتی انٹیلیجنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فروخت کی جاتی ہیں، اور ان کا مقصد دہشت گردوں اور مجرموں کو پکڑنے میں مدد دینا ہے۔
واٹس ایپ کی ردعمل
واٹس ایپ کے سربراہ ول کیتھ کارٹ نے فیصلے کو پرائیویسی کی جیت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسپائی ویئر کمپنیاں اپنے غیر قانونی اقدامات کے لیے جوابدہی سے نہیں بچ سکتیں۔
ماہرین کی رائے
سائبر سیکیورٹی ماہرین نے اس فیصلے کو ایک اہم پیش رفت قرار دیا ہے۔ پیگاسس اسپائی وئیر کو منظر عام پر لانے والے جان اسکاٹ ریلٹن نے کہا کہ یہ فیصلہ واضح کرتا ہے کہ این ایس او گروپ نے کئی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔